انس با قرآن
logo512-articles

الملخص

اس پہلی رات سے جب قرآن رسول اكرم (ص) پر نازل ہوا معنویت كی پیاسی سرزمین “حجاز” رحمت الہی كا مركز قرارپائی اور اس چشمہ فیض الہی سے ارتباط كے راستے ہموار ہوگئے اور قرآن زمین و آسمان كو ملانے كی كڑی ہو گیا۔ كلام الہی سے انس اور چوبیس گھنٹے اس كی آیتوں كی تلاوت كی سرگوشی اس طرح سے تھی كہ رسول اسلام (ص) گھروں كے افراد كوان كی آواز قرآن كے ذریعہ پہچانتے تھے۔  كچھ لوگ قرأت اور كچھ حفظ اور كچھ افراد آیات الھی میں غور و خوض كیا كرتے تهے اور اسلامی معاشرہ بھی تعلیمات قرآن پرعمل پیرا تھا۔

اس كے باجود كیوں قرآن یہ كہتا ہے كہ رسول اسلام (ص) قیامت كے دن قرآن كی مھجوریت كا شكوہ كریں گے؟ كیا آنحضرت (ص) اپنے زمانے كی امت سے نالاں ہیں یا اس دور كے بعد والے مسلمانوں سے؟ اگر اس زمانہ میں صحابہ اور رسول اسلام (ص) كے درمیان ارتباط كو مدنظر ركہا جائے تو ظاہراً ایسا لگتا ہے كہ یہ شكایت رسول كے بعد والی امت سے مربوط ہے۔

آیٔہ شریفہ (رب ان قومی اتخذوا ہذ القرآن مہجورا) كے ذیل میں ایسی كوئی معتبر روایتیں پائی جاتی ہیں جس كے ذریعہ صحیح فیصلہ ہو سكے ہیں لیكن مزكورہ باتوں كو مد نظر ركھتے ہوئے بہت محتمل ہے كہ یہ شكایت پیغمبر اسلام (ص) كے بعد آنے والی امتوں سے مربوط ہے۔

قرآن سے انس

مقاله حاضر كا ہدف یہ ہے كہ قرآن كے سلسلہ میں موجود روایتوں كي رتبہ بندی كر سكے تاكہ قرآن مھجوریت سے نكل آئے البتہ یہ رتبہ بندی پیغمبر (ص) اور معصومین (ع) كےتمام نورانی اقوال میں پائی جاتی ہے۔ ہم نے فقط اس رتبہ بندی كو آشكار كیا ہے۔ قرآن سے مربوط روایتوں میں سیر طولی كا ماحصل یہ ہوگا كہ ہركوئی اپنے ظرف كی وسعت اور اپنی قدرت كے برابر قرآن سے بہرہ مند ہو سكے اور ایك مرحلہ كی ناتوانی اسے قبل كے مراحل سے محروم نہ كر دے ۔ جیسے نماز پڑہنے كے سلسلے میں موجود روایتوں سے فقھاء نے ایك قاعدہ اخذ كیا ہے كہ جس قاعدہ كے تحت كوئی شخص ترك نماز كا عذر نہیں ركھتا اور كہا گیا ”    الصلوة لایترك بحال” نماز كسی حال میں بھی ترك نہیں ہونی چاہئیے۔

اسی طرح سے قرآن كے سلسلہ میں بھی اگر ہم چاہتے ہیں اسے مہجوریت سے خارج كریں تو كوئی شخص كسی بھی حال میں قرآن سے اپنا رابطہ قطع نہ كرے۔ ہاں نماز كے لئے ایك حكم الزامی ہے لیكن قرآن كے سلسلہ میں كوئی الزام و تكلیف نہیں پائی جاتی اگر قرآن سے متعلق روایتوں كو اس طرح رتبہ بندی نہ كریں تو ان كے درمیان سخت تعارض واقع ہوگا۔ مثال كے طور پر بعض ایسی روایتیں ہیں جو صرف تلاوت كا حكم دیتی ہیں اور اس بات كی تاكید كرتی ہیں یہاں تك كہ پیغمبر اسلام (ص) سے مروی ہے كہ: “اگركوئی قرآن كو غلط پڑ ہے اور اصلاح كرنے پر قادر نہ ہو، تو ایك فرشتہ مامور ہوگا جو اسے صحیح طریقہ سے اوپر لے جائے” یا بعض دوسری روایتوں میں قرآن سننے كے لئے ثواب ذكر كیا گیا ہے یہاں تك كہ غیرارادی طور پر بھی سننا مستحق اجر و جزا جانا گیا ہے۔

اس كے مقابل میں پیغمبر (ص) اور آئمہ (ع) سے بہت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جو اشارہ كرتی ہیں كہ تدبر اور تفكر كے بغیر قرائت میں كوئی خیر و بركت ن ہیں ہے یا وہ روایتیں جو صرف قرآن پرعمل پیرا ہونے كے ارزش كی قائل ہیں۔ یہ تعارض برطرف ہونا چاہئیے اور تعارض برطرف كرنے كاصرف ایك طریقہ یہ ہے كہ كہا جائے یہ تمام روایتیں اپنے اپنے طبقہ كے مخاطبین سے مربوط ہیں، بعض فقط قرآن كو گھر میں ركھ سكتے ہیں حتیٰ كہ قرائت سے بھی عاجز ہیں بعض فقط اس كی طرف دیكھ سكتے ہیں، بعض اس میں غور و فكر كرتے ہیں اور بعض اس پرعمل كرتے ہیں اور جو ان تمام مراتب كو جمع كرلے ” طوبیٰ لہ وحسن مآب ” ۔

اس تقسیم بندی كی تائید امام صادق علیہ السلام كی ایك روایت بھی كرتی ہے آپ (ع) فرماتے ہیں: ” كتاب اللہ علیٰ اربعۃ: العبارة للعوام، الاشارة للخواص، اللطائف للاولیاء والحقائق للانبیاء ” ۔ ۴

بعض لوگوں كا قرآن سے بہرہ مند ہونا عبارات وظواہر تك ہے بعض كے لئے وہی ظواہر اشارہ ہیں معنیٰ خاص كی طرف۔ اولیاء الہی قرآنی آیتوں سے لطائف تك پہنچتے ہیں اور انبیاء آیات الہی كے بطون اور اپنے اپنے مراتب درك كے پیش نظرحقائق كے اس اعلی مراتب پر پہنچ جاتے ہیں جہاں دوسرے پہنچنے سے عاجز ہیں ۔

البتہ اس نكتہ كی طرف توجہ ضروری ہے كہ شیعہ ائمہ بھی حقیقت قرآن سے آگاہ ہیں اور عوام جس چیز كو سمجھنے سے عاجز ہے اس كا علم ركھتے ہیں۔ یہاں بطون قرآن سے مربوط چند روایت كی طرف اشارہ كریں گے۔  چونكہ قرآن كے لئے بطن كا ثابت كرنا در واقع تاكید ہے اس بات پركہ اولاً قرآن كے سلسلے میں سب كی سمجھ ایك جيسي نہیں ہے، ثانیاً ظاہر و باطن ایك امر نسبی ہے ممكن ہے كوئی چیز كسی شخص كے لئے باطن آیت ہو لیكن دوسرے كے لئے وہ ظاہر ہو یااس كے برعكس اور یہ ایك مہم بحث ہے۔

نتیجہ

اس مقالہ سے ہم اتنا ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن معاشرے میں مھجور واقع ہوا ہے ، ہم سبھی کی ذمہداری ہے اس کہ اس حالت سے نکالا جاَے اور قرآن سے انس برقرار کیا جاے۔